Pakistani Liberal Terrorists - پاکستانی لبرل دھشتگرد


پاکستانی لبرل دھشتگرد

جب بھی بارش ہونے والی ہوتی ہے، ایک پرندہ اڑتا ہے- اس پرندے کو پنجاب میں ٹٹیری کہتے ہیں اور بھی کچھ نام ہیں اس کے- یہ پرندہ رات کو سوتے ہوئے اپنی ٹانگیں اوپر کر کے سوتا ہے- پتا کیوں؟ اسکو لگتا ہے کہ اس نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے اگر یہ سو گیا تو آسمان گر پڑے گا- اسی طرح ہمارے ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی سے لڑنے والا اصل فریق پاکستانی عوام ہیں- لیکن ماروی سرمد، عاصمہ جہانگیر اور ان جیسے باقی خود ساختہ لبرل جو مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں انکی فکری ٹانگیں بھی اوپر ہوتی ہیں سوتے ہوئے کیونکہ وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے انتہا پسندی سے ٹکر لے رکھی ہے- وہ پاکستانی معاشرے میں دھشتگردوں سے لڑ رہے ہیں ایسا لگتا ہے ان کو-

اب آپ کو بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسے لوگ کیا کرتے ہیں، کیوں کرتے ہیں، خود کو کیا سمجھتے ہیں اور در حقیقت کیا ہیں- صرف تین معاملات ہیں جہاں ہمارے لبرلز کی دم کھڑی ہوتی ہے اور وہ اس پر ناچنا شروع کر دیتے ہیں- ایک جب کوئی لڑکی گھر سے بھاگ کر شادی کر لے، دو جب کسی بھٹکے ہوئے مسلمان کے انفرادی عمل کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا ہو اور تین جب پاک فوج یا پاکستان کو گالی دینی ہو- کچھ اور ضمنی علامات بھی ہیں ان لوگوں کی، مثال کے طور پر نظریہ پاکستان سے نفرت، بھارت سے محبت، مذہب کو تمام مسائل کے لئے ذمہ دار ٹھہرانا، مادر پدر آزادی چاہنا- ہر وہ کام جو ہماری روایات کے خلاف ہو صرف وہی روشن خیالی کی نشانی لگنا-

یہاں پر کچھ باتیں واضح کرنا بہت ضروری ہے- لڑکی اور لڑکے کا اپنی پسند سے شادی کرنا اور گھر والوں کا زبردستی نہ کرنا یہ ایک ایسا حق ہے جو اسلام نے ان کو دیا ہے- اگر ہماری معاشرتی روایات میں خرابی ہے تو اس کے لئے مذہب کو ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں- اسی طرح غلط کام کوئی بھی کرے غلط ہے، ضروری نہیں ہے کہ ہماری ہر غلطی کے پیچھے مذہب ہی وجہ ہو، مذہب کی ناکافی سمجھ بھی بعض اوقات وجہ ہو سکتی ہے- آرمی میں بھی بہت غلطیاں ہوں گی، لیکن اچھائیاں بھی تو ہوں گی؟ لبرل حضرات! پاکستان میں سب سے زیادہ تنوع اور مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو برداشت کرنے کی روایت پاک فوج میں ہے- دہشت گردی کے خلاف اصل جنگ فوج ہی لڑ رہی ہے- آپ کو تو جب رواداری کا مطلب بھی نہیں پتا تھا تب سے فوج اس روایت پر عمل پیرا ہے- 

اور اب بات ہو جائے اس جنگ کے سب سے بڑے فریق یعنی عوام کی- دہشت گردوں نے پورے ملک میں حملے کئے، لوگوں کو کہا کہ ووٹ نہ ڈالیں، عوام نے کیا کیا؟ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے ٹرن آوٹ میں سے ایک ملا اس بار- ان عوام نے آج تک ملکی سطح پر کسی ایسی جماعت کو اکثریت نہیں دلائی جو انتہا پسند ہوں، جو مذہب کو استعمال کر کے مذہب کے خلاف اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی بات کریں- ہمارے ہمسایے اور لبرل انتہا پسندوں کے روحانی پیشوا سیکولر بھارت میں ایک نہیں کئی بار بی جے پی جیسی مذھبی انتہا پسند جماعتیں اکثریت بھی لے چکی ہیں اور حکومت بھی بنا چکی ہیں-

ہمارا ملک دو فکری محازوں میں پس رہا ہے- ایک طرف اسلام کا نام استعمال کر کے دهشت گردی کرنے والے، دوسری طرف اسلام کو ہر چیز کے لئے ذمہ دار ٹھہرانے والے- دونوں کا مقصد ایک ہی ہے- اسلام کو بدنام کرنا، اسلام کے اصل پیغام کو مجروح کرنا، ہماری اچھی معاشرتی روایات کو بھی معدوم کرنا، پوری دنیا کے سامنے مسلمانوں کو متشدد ثابت کرنا، پاکستان کو نقصان پہنچانا، بھارت کے سامنے قوم کو احساس کمتری میں مبتلا کرنا، فوج کو کمزور کرنا اور لوگوں کو مذہب سے متنفر کرنا- کتنی حیران کن بات ہے؟ بظاھر دو متضاد سوچیں؟ اور عزایم کتنے مشترکہ؟ آیندہ کسی بھی مذہبی دہشتگرد یا لبرل دہشتگرد کی باتیں سنتے ہوئے ان نکات پر ضرور غور کیجئے گا- کہیں ان دونوں کی اصل ایک ہی تو نہیں؟ ان دونوں کو پیسے اور میڈیا کوریج دینے والے ایک ہی نہیں؟ 

اس کالم کے مخاطب نہ تو مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والے ہیں اور نہ ہی روشن خیالی کے نام پر- اس کالم کے مخاطب مجھ جیسے، آپ جیسے عوام ہیں- وہ عام لوگ ہیں جو ان لوگوں کے بہکاوے میں آ کر دین کو نقصان پہنچانے پر تل جاتے ہیں- خدا کے لئے تھوڑا سا سوچئے اور سمجھئے، یہ دونوں ایک ہیں، صرف طریقہ کار مختلف ہیں-اور اب اس کالم کی آخری بات پر ذرا غور کیجیے گا اور آئندہ جب بھی یہ آپ کو بہکانے کی کوشش کریں تو ان لوگوں کو یہ بتایئے گا- دین اور لا دینیت کے ٹھیکیداروں سے بڑی عاجزی سے ایک گزارش ہے- میں ایک عام پاکستانی مسلمان ہوں- مذھب کے نام پر معصوم لوگوں کو قتل کرنے والوں سے ہزار گنا زیادہ مذہبی اور ماروی سرمد اور عاصمہ جہانگیر جیسے لبرل لوگوں سے لاکھوں گنا زیادہ روشن خیال ہوں- کیا آپ دونوں ہماری جان چھوڑ سکتے ہیں؟ عین نوازش ہو گی-